حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ذاتی نام سے پکارنا کیسا ؟ |
السلام علیکم ورحمۃ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ شرع اس مسلئے کے بارے میں کہ آج کل ایک نعت بہت زیادہ وائرل ہو رہی ہے جس کا پہلے شعر درج ذیل ہے
دیکھنے کو یا محمد یوں تو کیا دیکھا نہیں
ہاں مگر محبوب تم سا دوسرا دیکھا نہیں
اس شعر کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ذاتی نام محمد یا احمد سے پکارنا کیسا؟
سائل: غلامِ مصطفیٰ رضوی قادری
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ذاتی نام سے پکارنا مناسب نہیں اللہ تعالی نے خد بھی قرآن مجید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے نام سے نہیں پکارا ہے بلکہ ان کے القابات سے ان کو پکارا ہے جیسے يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ یَا أَيُّهَا النَّبِيُّ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ
لہذا جب خد اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ کے ذاتی نام سے نہیں پکارتا تو پھر ہم کیسے پکار سکتے ہیں اس لئے یہ مناسب نہیں اکثر علماء کرام نے اس کو مکروہ اور بعض نے حرام کہا ہے۔
:قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
"لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا"
(سورۃ النور: 63)
ترجمہ: "رسول کو پکارنے کا طریقہ، ایسا نہ بناؤ جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔"
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ"
(سورۃ الحجرات: 2)
ترجمہ: "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے اونچا نہ کرو، اور نہ ہی انہیں ایسے بلند کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔"
مندرجہ بالا آیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے ذاتی نام سے نہ پکارا جائے حضور صلی اللہ علیہ سے مخاطب ہونے میں ادب و احترام ضروری ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے تھے، تو وہ آپ کو 'یا رسول اللہ' یا 'یا نبی اللہ' کہہ کر پکارتے تھے۔"
(صحیح بخاری: 3856)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھ سے ایسے نہ بات کرو جیسے تم ایک دوسرے سے کرتے ہو، کیونکہ میں اللہ کا نبی ہوں۔"
(صحیح مسلم: 5325)
مندرجہ بالا روایات سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے اور ان سے مخاطب ہونے میں ادب کا خاص خیال رکھا جائے اور انہیں ان کے ذاتی نام سے نہ پکارا جائے۔
امام قاضی عیاض (رحمہ اللہ) اپنی مشہور کتاب "الشفاء شریف" میں فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے ذاتی نام سے پکارنا جائز نہیں ہے، بلکہ تعظیم کے ساتھ ان کو 'یا رسول اللہ' یا 'یا نبی اللہ' کہنا چاہیے۔"
(الشفاء، جلد 2، صفحہ 76)
علامہ ابن حجر عسقلانی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ذاتی نام سے پکارنا مکروہ ہے، اور اس میں ادب کی خلاف ورزی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ آپ کو عزت و احترام کے ساتھ 'یا رسول اللہ' کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔"
(فتح الباری، جلد 11، صفحہ 133)
امام نووی (رحمہ اللہ) اپنی کتاب "شرح صحیح مسلم" میں فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ذاتی نام سے پکارنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں ادب کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔"
(شرح صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 301)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ذاتی نام سے پکارنے میں ایک طرح کی بے ادبی ہے، اور یہ چیز نبی کی عظمت و توقیر کے منافی ہے۔"
(حجۃ اللہ البالغہ، جلد 1، صفحہ 451)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "یا محمد" یا "یا احمد" کہہ کر پکارنا ادب کے منافی سمجھا جاتا ہے اور اس سے بچنا واجب ہے۔ علماء کے مطابق اس معاملے میں مختلف قول ہیں
اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی نام سے پکارنا مکروہ تحریمی ہے، یعنی سخت ناپسندیدہ ہے اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔
بعض علماء کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "یا محمد" یا ذاتی نام سے پکارنا حرام ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و ادب کے خلاف ہے۔
مندرجہ بالا تمام حوالہ جات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ "یا محمد" کہہ کر پکارا جانا شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "یا رسول اللہ" یا "یا نبی اللہ" کہہ کر پکارا جانا چاہیے۔ اس نعت کے پڑھنے اور سننے سے اجتناب کرنا چاہیے، یا اس کو اس طرح ترمیم کرنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعظیم کا اظہار ہو۔
بہتر رہے گا اگر شعر کو درج زیل طریقے سے پڑھنا چاہیے
دیکھنے کو یا مزمل یوں تو کیا دیکھا نہیں
ہاں مگر محبوب تم سا دوسرا دیکھا نہیں
اس لیے کہ اس طرح سے اس میں وزن اور ادب دونوں برقرار ہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: اسیرِحضور قائد ملت
ایک تبصرہ شائع کریں